Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 17

وہ موبائل ہاتھ میں لیے کمرے میں آیا موبائل کو ٹیبل پر رکھ کر ٹاول کو ٹاول سٹینڈ پر رکھتا بیڈ کی طرف آیا جہاں پرخہ پُوری طرح نیند کی وادیوں میں کھوئی ہوئی تھی مریام شاہ اُس کے قریب ٹک گیا اور اُسکے سلکی بالوں کو سہلانے لگا پھر جُھک کر اُسکی پیشانی چُوم لی۔ "پرخہ۔۔۔۔۔۔"اُس کے کان کے قریب جا کر سرگوشی کرنے والے انداز میں پُکارا جس پر اگلے پل ہی وہ کسمسکاتی ہوئی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی جو اس کے بہت قریب بیٹھا اپنی آنکھوں سے اس کے ایک ایک نقوش کو چُھو رہا تھا وہ خُود پر جمی اُسکی نظریں اور رات کے منظر یاد کرتی لال سُرخ ہوتی اپنے چہرے کو کمبل میں چُھپا گئی مریام شاہ ہنس دیا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے کمبل ہٹایا۔ "اُف ایک تو یہ تُمہارے شرمانے کی ادا مُجھے لے ڈوبے گی۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی گردن پر جُھکا۔ "اور آپکی بے شرمی۔۔۔۔۔۔"وہ کہتی ہوئی اُٹھنے لگی مگر مریام شاہ نے اُسکی قمر میں ہاتھ ڈال کر ایسا کرنے سے روک لیا۔ "ابھی تُم نے میری بے شرمی دیکھی کہاں ہے مسز۔۔۔۔۔۔"وہ ایک شوخ سی شرارت کر گیا پرخہ کی جان اُسکے لبوں پر آ گئ۔ "ویسے اگر اجازت دو تو یہ دن بھی رات بن سکتا۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اپنے پاؤں سے اُسکا پاؤں سہلاتے ہوئے معنی خیزی سے کہا تھا جسکا مطلب سمجھتی پرخہ کے ہوش اُڑ گئے وہ جلدی سے اسے پیچھے کرتی اُٹھی تھی مریام شاہ قہقہ لگا کر ہنستا بیڈ پر گر گیا۔ "بہت ڈرپوک ثابت ہوئی رومینس کے معاملے میں اُف کیا ہوگا تُمہارا مریام شاہ۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُسے دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری جو وارڈرب سے اپنے کپڑے نکال رہی تھی۔ "ویسے ہو بہت میٹھی تُم۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا لہجہ پُر تپش تھا جو پرخہ کے گال دہکا گیا۔ "شاہ آپ بہت بے شرم ہیں۔۔۔۔۔"مارے حیا سے سُرخ ہوئی اُسکی جذبے لُٹاتی اور شریر آنکھوں سے بچتی وہ واش رُوم میں بھاگ گئی۔

"__________________________________"

"ہیلو ایس پی عارف۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں اُسکی گاڑی خراب ہو گئی ڈرائیور کو ٹھیک کرنے کا بول کر وہ چلتا ہوا سڑک کے ایک طرف لگی مسافر سیٹنگ پر بیٹھ گیا کہ اپنے پاس سے اُبھرتی آواز پر چونک اُٹھا۔ "پہچان تو لیا ہوگا تُم نے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے چہرے سے ہُڈ ہٹاتا اُسکی حیران آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ "تُمہیں کیسے بُھول سکتا ہوں میں،آخر تُم ہو کون۔۔۔۔۔۔" "بتادُونگا ایس پی ابھی وقت تو آنے دو،پہلے مُجھے بلوچ کا افسوس تو کر لینے دو،بہت دُکھ ہوا اُسکی موت کا۔۔۔۔۔۔"اُسکے لہجے سے زرا بھی دُکھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ "مُجھ سے کیوں افسوس کر رہے ہو اُسکے گھر والوں اور عزیزوں سے کرو۔۔۔۔۔۔"وہ نہ جانے کیوں نظریں چُرا کر بولا جس پر بُرہان کے لبوں پر پُرسرار مُسکراہٹ اُبھری۔ "مُجھے تو تُم بھی اُس کے عزیزوں میں سے لگتے ہو۔۔۔۔۔۔" "میں،میرا کیا تعلق بھلا اُس سے۔۔۔۔۔۔"وہ سٹپٹا گیا۔ "تعلق تو بہت سے نکل آتے ہیں خیر چھوڑو اس بات کو،میں تُم سے کُچھ کہنے آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔" "کیا۔۔۔۔۔"وہ پوری طرح متوجہ ہوا۔ "تُم مریام شاہ کے والدین اور اُس کے سُسرال کا کیس دوبارہ اوپن کر دو۔۔۔۔۔۔" "پر کیسے کوئی ثبوت تو ہے نہیں۔۔۔۔۔۔"اُس کے جلدی سے کہنے پر بُرہان نے ایک سپاٹ نظر اُس پر ڈالی۔ "ثبوتوں کی تُم فکر نہ کرو،میں نے سارے ثبوت اکھٹے کر لیے ہیں تُم بس اس کیس کو ری اوپن کرو اور اس کیس کو ایس ایچ اوہ طارق کے سُپرد کر دو۔۔۔۔۔۔۔" "کیوں اُس کے سُپرد کیوں۔۔۔۔۔۔"اُسے ناگوار گُزرا۔ "بس مُجھے وہ بندہ بہت پسند ہے،تُم وہی کرو جو کہا ہے،تُم بارہ سال تک اس کیس پر کُچھ نہیں کر سکے تو اب کیا کرو گئے۔۔۔۔۔۔۔" "اور ہاں ایک اور بات تُمہارے گوش و گُزار کر دُوں،میں نے راٹھور کو ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے ہکا بکا چہرے پر ایک نظر ڈالتا چلا گیا جبکہ وہ اپنا فق چہرہ لیے وہی بیٹھا رہ گیا۔ "صاحب گاڑی ٹھیک ہو گئی۔۔۔۔۔۔"ڈرائیور کی آواز پر وہ اپنے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"__________________________________"

"پرخہ بیٹا کُچھ چاہئیے کیا۔۔۔۔۔۔"وہ مریام شاہ کے لیے اپنے ہاتھ سے کافی بنانے کے لیے کچن میں آئی تو رات کا کھانا بناتی عامرہ خاتون اس سے پوچھنے لگیں۔ "وہ مُجھے شاہ کے لیے کافی بنانی ہے۔۔۔۔۔۔" "پر بیٹا تُمہیں تو کافی بنانی نہیں آتی۔۔۔۔۔"صندل بُوا حیران ہوئیں۔ "آپ مُجھے بتا دیں میں بنا لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔"اس کے کہنے پر وہ سر ہلاتی اسے طریقہ بتانے لگیں اور پرخہ کافی بنانے لگی مگر بے دھیانی میں اُسکا ہاتھ فرائی پین سے ٹکرایا اور گرم گھی چھلک کر اُسکے ہاتھ پر گرتا ہاتھ جلا گیا اگلے لمحے ہی پرخہ کی چیخ گونجی تھی جسے باہر ہال میں بیٹھا مریام شاہ سُن کر بھاگتا ہوا کچن میں آیا جہاں وہ کُرسی پر ہاتھ کو لیے آنسو بہا رہی تھی جبکہ عامرہ خاتون اور صندل بُوا بوکھلاتیں ہوئیں اسکے جلے ہاتھ پر کُچھ لگانے کے سد باب کرنے میں مصروف تھیں۔ "کیا ہوا،کیا ہوا ہے ہاتھ کو پرخہ۔۔۔۔۔۔"وہ بے چینی سے اُس کے ہاتھ کو دیکھنے لگا جو نہ صرف سُرخ ہو چُکا تھا بلکہ اُس پر آبلہ سا بن گیا تھا۔ "پرخہ بیٹی کا ہاتھ جل گیا۔۔۔۔۔۔"صندل بُوا نے بتایا۔ "کیسے جل گیا،آخر یہ کچن میں آئی کیا لینے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے چہرے پر غُصہ چھلکنے لگا پرخہ کے آنسو دیکھ کر وہ کٹ کر رہ گیا۔ "ریلیکس میری جان۔۔۔۔۔۔"اُسکا جلا ہاتھ اپنے لبوں سے لگا کر وہ اُٹھ کر برننگ ٹیوب تلاش کرکے اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ٹیوب لگانے لگا۔ "چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے پکڑ کر اُٹھانے لگا پھر اُن دونوں کی طرف پلٹا۔ "آج کے بعد پرخہ پانی پینے بھی کچن میں آئی تو میں کسی کو معاف نہیں کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سخت لہجے میں کہتا اُسکا ہاتھ تھامتا کمرے میں آیا اسے صوفے پر بٹھا کر ساتھ بیٹھ کر اُسکے چہرے سے آنسو صاف کرنے لگا۔ "پرخہ تُم سے پہلی اور آخری دفعہ کہہ رہا ہوں آج کے بعد اگر تُمہاری آنکھوں میں مُجھے آنسو نظر آئے تو تُمہاری جان لے لونگا۔۔۔۔۔۔" "شاہ۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی جنونیت پر حیران و پریشان ہو کر اُسے دیکھنے لگی جو گہرا سانس بھرتا خُود کو کنٹرول کرنے لگا۔ "اب تو جلن محسوس نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے پوچھنے پر وہ جلدی سے سر اثبات میں ہلا گئی۔ "سچ بتاؤ پرخہ اگر جلن ہو رہی ہے تو ڈاکٹر کو بلوا لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔" "نہیں شاہ،مُجھے اب جلن نہیں ہو رہی ہے اور ویسے بھی بس تھوڑا سا تو ہاتھ جلا تھا آپ نے زیادہ سیریس لے لیا۔۔۔۔۔۔" "تو آنسو کیا خُوشی میں باہر آئے تھے تُمہارے،شُکر کرو عامرہ خاتون اور صندل بُوا تھیں اُنکی عمر کا لحاظ کر گیا ورنہ کوئی اور ہوتا تو اس وقت دُنیا میں نہ رہتا۔۔۔۔۔۔"وہ دانت پیس کر بولا تو وہ اُسکی جذباتیت پر سر تھام کر رہ گئی۔ "شاہ آپ بھی نہ،میرا خُود کا دل کر رہا تھا آپ کے لیے کافی بنانے کا۔۔۔۔۔۔۔" "کسی دن میں تُمہارے پاس کھڑا ہونگا تب بنا لینا کافی،شوہر کو خُوش کرنے کے اور بھی طریقے ہیں محترمہ اُن میں ہاتھ جلنے کا بھی خطرہ نہیں ہوتا اگر غور کرو تو۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا ہاتھ پکڑ کر معنی خیز لہجے میں بولتا اُسے سٹپٹا گیا اُس کے پُورے وجود میں خُون گردش کرنے لگا اُسکی بڑھتی قُربت سے جو اُسے قریب کرتا اپنا چہرہ اُسکے بالوں میں چُھپا گیا۔ "وہ اُسامہ بھائی ٹھیک ہو گئے کیا۔۔۔۔۔۔"اُس کے بڑھتی شوخیوں سے گھبرا کر بول اُٹھی۔ "اس سے بہتر بات نہیں ملی تُمہیں کیا اس لمحے پوچھنے کی۔۔۔۔۔۔۔"اُسے ناگوار گُزرا تھا۔ "وہ بیمار تھے نہ تو۔۔۔۔۔۔" "ٹھیک ہے وہ،آئے گا یہاں ایک دو دن تک۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کر وارڈرب سے اپنا نائٹ ڈریس نکالنے لگا۔ "اور بُرہان بھائی،کیا وہ بھی آئیں گئے۔۔۔۔۔۔" "ہاں تُم سے ملنے کو بہت بے چین ہے وہ،ابھی اُسے چُھٹی نہیں ملی جب ملے گی تو آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔ "آپ فریش ہونے لگے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے شرٹ اُتار کر نائٹ ڈریس اُٹھاتے دیکھ کر پوچھنے لگی۔ "ہاں کیوں۔۔۔۔۔۔" "ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔" "ڈنر بھی کر لیتے ہیں پہلے فریش تو ہو لیں،ابھی تو رات کی بھی تیاری کرنی ہے۔۔۔۔۔"اُسکی طرف قدم بڑھائے جو نہ سمجھی سے دیکھ رہی تھی۔ "کیسی تیاری۔۔۔۔۔۔" "ویسی جیسی کل رات کو کی تھی۔۔۔۔۔۔"اُسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے نزدیک کیا اُسکا دل اُسکے کانوں میں بجنے لگا۔ "وہ میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔" "فکر نہ کرو ہاتھ کو زرا سی بھی تکلیف نہیں آنے دُونگا اتنا تو تُم رات کو جان ہی چُکی ہو کہ مریام شاہ کے لیے تُم کسی نازک آبگینے سے کم نہیں جسے ہاتھ لگاتے وقت مریام شاہ بھی اُسے توڑنے سے ڈرتا ہے اور پیار سے برتنا مُجھے خُوب آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے دھیمے انداز پر وہ شرمیلی مُسکان لبوں پر سجا کر آسودہ ہو کر اُس کے سینے پر سر ٹکا گئی۔

"__________________________________"

وہ کراچی سے سیدھا بلوچ ھاؤس آیا جہاں اُسے شہباز بلوچ ٹہلتا ہوا ملا۔ "جی بلوچ سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے بُلانے پر شہباز بلوچ نے اُسے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا جو بلیک شلوار قمیض میں اپنی شاندار پرسنالٹی کے ساتھ چھایا ہوا لگ رہا تھا۔ "ہاں آؤ جونیجو،تُمہیں پتہ چل گیا کہ بابا سائیں کو مریام شاہ نے مار دیا ہے،مُجھے تُم یہ بتاؤ اُس دن تُم کہاں تھے بابا سائیں اکیلے تو کہیں جاتے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔" "میں اُن کے ساتھ ہی بلوچ ھاؤس سے نکلا تھا مگر راستے میں مُجھے کال آگئی میری اماں کی طبعیت بہت خراب ہو گئی تھی اس لیے مُجھے اُنکو لے کر کراچی جانا پڑا اور میں بلوچ سائیں سے پوچھ کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے مضبوط اور متوازن لہجے پر وہ سر ہلا گیا مریام شاہ نے غور سے اُسکے تاثرات لا جائزہ لیا جو اس پر یقین کر چُکا تھا۔ "احمق سالہ۔۔۔۔۔۔"وہ دل ہی دل میں مُسکرایا۔ "تُمہیں جلدی بُلانے کی وجہ راٹھور تھا وہ تُم سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔" "کون راٹھور سائیں،وہ بلوچ سائیں کا دوست۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں وہی،کال کر دی ہے میں نے بس پہنچنے والے ہیں وہ،میں کمرے میں جا رہا ہوں جب بُلایا جائے تو آ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ کے کہنے پر اس نے سر ہلایا وہ اُسی کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں خفیہ راستے سے راٹھور آتا تھا۔ "سر آپ سے راٹھور کیوں ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔"گُھمن کی آواز پر وہ اُسکی طرف پلٹا۔ "یہ تو مل کر ہی پتہ چلے گا،لیکن میرے خیال میں اب راٹھور کا قصّہ ختم ہو جانا چاہئیے،بُرہان شاہ تک میرا میسج پہنچا دینا کیونکہ مُجھے اب صرف حاکم کی تلاش ہے جس نے میری ماں کو وہاں بلوایا تھا۔۔۔"اُس کے چہرے پر کرختگی چھلکی۔ "جی سر۔۔۔۔۔۔۔"گُھمن چلا گیا تو کُچھ دیر بعد مریام شاہ بھی اُس کمرے میں داخل ہوا جہاں ایک صوفے پر شہباز بلوچ اور دوسرے پر راٹھور چہرے اور ہاتھوں پر ماسک چڑھائے بیٹھا تھا۔ "تو یہ ہے جونیجو،بہت سُنا تھا بلوچ کے مُنہ سے اس کے بارے،بہت بہادر آدمی ہے پر اپنے سائیں کو بچا نہیں پایا مریام شاہ کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "اگر اُس وقت ساتھ ہوتا تو بچا بھی لیتا،اب میرے فرشتوں کو تو خبر نہیں تھی کہ کُچھ ایسا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اسکا لہجہ ہر تاثر سے عاری تھا۔ "گرم خُون ہے،بہت اچھا کام آئے گا ہمارے،مریام شاہ کے ساتھ کام کرتے رہے ہو نہ تُم تو جانتے ہو گئے وہ کن باتوں پر مات کھا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔" "یہ تو دینے والے کا کمال ہے کہ وہ کس طرح اور کن باتوں پر دوسروں کو مات دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اسکے لہجے میں چُھبن تھی جسے راٹھور بنا محسوس کیے بولا۔ "بہت اچھے،بات تو سچ ہے،اب تُمہیں یہ پتہ لگانا ہوگا کہ مریام شاہ کو کہاں اور کس جگہ مات دینا پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔" "میں کیسے یہ پتہ لگا سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔" "تُم نے اُس کے ساتھ کام کیا ہے دوبارہ پھر اُس کے ساتھ تعلق بناؤ اور کسی بھی طریقے سے اُس کے قریب جاؤ اور ہمیں اُسکی بیوی تک پہنچاؤ اُس سے آگے ہم جانے اور ہمارا کام۔۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کی بات پر مریام شاہ کی نہ صرف رگیں تن گئی تھیں بلکہ اُس نے سختی سے اپنی دونوں مُٹھیاں بھینچ لی تھیں ورنہ اُسکا دل کر رہا تھا اسکا مُنہ توڑ دے جس سے اُس کی بیوی کا نام نکلا تھا۔ "جی ضرور،چلتا ہوں اب میں مُجھے کوئی کام ہے۔۔۔۔۔۔"سپاٹ انداز میب کہتا باہر نکل آیا اگلے لمحے ہی اُس نے بُرہان کو کال ملائی۔ "میں اپنا کام آج ہی ختم کر کے آ رہا ہوں اب مُجھے جونیجو کی کوئی ضرورت نہیں،اور راٹھور کی آذادی اب ختم ہو جانی چاہئیے ورنہ میں اُسے قتل کرنے میں ایک پل نہیں لگاؤنگا جو بھی اپنی زبان سے میری بیوی کا نام نکالے گا۔۔۔۔۔۔۔"دانت پیس کر بولتا بنا اُسکی سُنے کال بند کر گیا گُھمن کو اپنے جانے کا اشارہ کرتا گاڑی کی طرف بڑھا اب اُسکا رُخ نُور حویلی کی طرف تھا۔

"___________________________________"

وہ نُور حویلی آیا تو پہلا ٹاکڑا اُسکا امتل بلوچ سے ہی ہوا جسے دیکھ کر وہ صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا۔ "تُم کہاں تھے اتنے دن جونیجو۔۔۔۔۔۔" "کسی کام سے گیا تھا میں،بلوچ سائیں کے کمرے میں جانا ہے مُجھے کیا آپ لے چلیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جلدی سے اصل مُدعے پر آیا اس وقت اُسکی دلجوئی کرنے کا اُسکا کوئی موڈ نہیں تھا۔ "کیوں بابا سائیں کے کمرے میں کیوں۔۔۔۔۔" "اُن کے قاتل کی تلاش جاری ہے میں نے سوچا اُنکے کمرے کی تلاشی لے لُوں کیا پتہ کوئی سُراغ مل جائے۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کی بات پر وہ سر ہلاتی اسے ساتھ لیے قادر بلوچ کے کمرے میں چلی آئی۔اُس کے سامنے چند چیزوں پر غور کرتا اسکی طرف مُڑی جو اسے دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ مریام شاہ کو اُس کے آگے چُٹکی بجانی پڑی۔ "کہاں گُم ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔" "آپ میں۔۔۔۔۔"وہ فدا ہوتی نظروں سے دیکھنے لگی مریام شاہ کے چہرے پر ناگواری کی لہر چمکی۔ "کیا آپ چائے پلوا دیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں ضرور،آج مُجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے،میں چائے لاتی ہوں پھر میرے رُوم میں چل کر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔"کہتی ہوئی چلی گئی تو مریام شاہ نے اُسکی فضول گوئی پر سر جھٹکا اور اپنے کام میں لگ گیا اُسے حاکم کا کوئی کلو چاہئیے تھا اُس کے لیے ہی وہ یہاں تک آیا تھا بلوچ کا پُورا کمرہ اُس کے لاکرز سب چیک کر لیے مگر اُسکا کوئی کلو اسکے ہاتھ نہیں لگا تھا۔ "شٹ۔۔۔۔۔۔"پُورے کمرے پر ایک گہری نگاہ ڈالتا وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا جب امتل بلوچ چائے لے کر آئی وہ کمرے سے کیا حویلی سے بھی نکل چُکا تھا پھر کبھی نہ آنے کے لیے۔

"__________________________________"

اُسامہ اور بُرہان دونوں اُس ٹھکانے پر آئے تھے جہاں دونوں کو راٹھور کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی اور جہاں اُسے پکڑنے میں آسانی تھی۔ "بُرہان میں اس خارجی راستے پر کھڑا ہوں تُم دوسری طرف سے جاؤ تا کہ اگر وہ بھاگنے بھی لگے تو میں اُسے پکڑ لُوں اور سعید پُورے ٹائم پر اٹیک کرے گا۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کے کہنے پر وہ سر ہلاتا اُس مکان کے داخلی دروازے کی طرف بڑھا جہاں راٹھور کی گاڑی کے پاس دو گاڑڈز کھڑے تھے جن کو بُرہان نے اپنی تربیت کے جوہر دکھاتے ہوئے مار چت گرایا تھا اور پھر بے آواز قدموں سے اندر کی طرف بڑھا اور دروازے کی آوٹ سے راٹھور کو دیکھا جو دو بندوں کے پاس کھڑا کُچھ سمجھا رہا تھا۔ "کیسے ہو ایس پی عارف راٹھور۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی آواز پر راٹھور ٹھٹھک کر مُڑا اسے اپنے سامنے دیکھ کر بھونچکا رہ گیا جو پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا اُس کے پاس آیا تھا۔ "تُم یہاں۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں کیوں میرا آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔۔۔۔"بُرہان کے چہرے پر بڑی جان لیوا مُسکراہٹ تھی۔ "مُجھے نہ تُمہیں حیران کرنا بڑا اچھا لگتا ہے مائے سویٹ ایس پی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں میں تمسخر تھا جسے دیکھ کر راٹھور نے اپنے بندوں کو اشارہ کیا تھا اور وہ دونوں پسٹل تانے اسکے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے تھے بُرہان کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ "مُجھے تُمہارے یہ دو ٹکے کے کارندے ڈرا نہیں سکیں گئے راٹھور۔۔۔۔۔۔" "تُم کون ہو تُمہیں میرا پتہ کیسے لگا۔۔۔۔۔۔"وہ ابھی تک حیران تھا کہ وہ تو ہر مُمکن کوشش کرتا تھا اپنی اصلیت چھپانے کی۔ "بتا دُونگا ایس پی،اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے اپنی گھڑی پر ایک نظر ڈالی پھر اُس سے مُخاطب ہوا۔ "میرا اس وقت خُون خرابے کا زرا موڈ نہیں اس لیے خاموشی سے ویسا کرو جیسے کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔" "مُجھے اخمق سمجھ رکھا ہے کیا۔۔۔۔۔۔"اُس نے پسٹل نکال کر سیدھا کیا بُرہان نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا۔ "بگ برو ٹھیک کہتے ہیں تُم لوگ صرف گولی کی زبان سمجھتے ہو۔۔۔۔۔۔۔" "کون بگ برو۔۔۔۔۔۔" "بگ برو کو دُشمن کی یہ ادا زہر لگتی ہے کہ وہ اپنے دُشمن سے پوری طرح واقف ہی نہیں ہوتا،خیر بگ برو کون ہے یہ تو ابھی بتا دیتا ہوں،مریام شاہ کا نام تو اچھی طرح سُن چُکے ہو گئے پر افسوس اُسے دیکھا نہیں تُم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے انکشاف پر وہ ساکت ہوا۔ "تُم مریام شاہ کے بھائی ہو۔۔۔۔۔۔" "جی لٹل برادر ہوں میں،ابھی آئے گئے بگ برو ملوا دُونگا آج تُمہیں اُن سے۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکرا کر بولتا راٹھور کو زہر لگا۔

"__________________________________"

مریام گھر ابھی آیا تھا کہ آفس سے کال آ گئی آج فارن ڈیلی گیشن کے ساتھ میٹنگ تھی وہ جانتا تھا اُسامہ یہاں نہیں اس لیے اُن سے کسی دن اور کی ڈیٹ فائنل کرنے لگا پرخہ جو اسکے پاس صوفے پر بیٹھی اُسکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ وہ انگلش میں بات کر رہا تھا۔ "کہیں جا رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔"اُسے وارڈرب سے کپڑے نکالتے دیکھ کر بولی۔ "ہاں اُسامہ کو ملنے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے بتانے پر وہ چُپ ہو گئی پھر کُچھ سوچتی بول اُٹھی۔ مُجھے پڑھنا ہے۔۔۔۔" "کیا پڑھنا ہے۔۔۔۔"مریام کی توجہ اپنی تیاری پر تھی۔ "مُجھے آگے پڑھنا ہے اور میٹرک میں ایڈمیشن لینا ہے۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر مریام کے شرٹ پہنتے ہاتھ رُکے۔ "یہ بیٹھے بٹھائے تُمہارے زہن میں پڑھنے کا خیال کیسے آ گیا۔۔۔۔۔۔" "مُجھے بھی انگلش سیکھنی ہے اور آپ کی طرح انگلش میں بات کرنی ہے جیسے آپ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ شاید تھوڑی دیر پہلے مریام کو فارن ڈیلر سے انگلش میں بات کرتے دیکھ کر کمپلیکس کا شکار ہونے لگی تھی۔ "اب میں تُمہارے سامنے انگلش میں بات نہیں کرونگا بلکہ کوئی بھی نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔"وہ جیسے اُسکی زہنی کیفیت سمجھتے ہوئے بولا۔ "نہیں مُجھے پڑھنا ہے اب کل کو جب ہمارے بچے انگلش میڈیم سکول میں پڑھیں گئے اور مُجھ سے کچھ پوچھیں گئے جب مجھے انگلش نہیں آئے گی تو تب مجھے کتنی شرمندگی ہو گی شاہ۔۔۔۔۔۔"وہ بہت لمبا سوچ کر بیٹھی تھی مریام نے اُسکی طرف دیکھا جو بیڈ پر بیٹھی مریام کی طرف دیکھ رہی تھی۔ "ویل اگر یہ بات ہے تو ہم اپنے بچوں کو پڑھائیں گئے ہی نہیں کیونکہ جس چیز میں تُمہیں شرمندگی محسوس ہو وہ کام میں کبھی ہونے نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔"مریام کا لہجہ اب کی بار سنجیدہ تھا جس پر وہ ہونق زدہ ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ "بلکل نہیں مجھے اپنے بچوں پر یہ ظلم نہیں ہونے دینا جو مجھ پر ہوا شاہ،بس میں نے کہہ دیا مجھے پڑھنا ہے تو بس پڑھنا ہے۔۔۔۔۔"وہ بضد ہوئی تو مریام گہرا سانس بھر کر اثبات میں ہلا گیا۔ "ٹھیک ہے اُسامہ کو بول دُونگا وہ یہاں آ کر تُمہیں پڑھا دیا کرے گا کیونکہ اسکے علاوہ میں کسی اور پر اعتبار نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر وہ سر نفی میں ہلا گئی۔ "نہیں مُجھے آپ سے پڑھنا ہے۔۔۔۔۔"وہ بیڈ پر آلتی پالتی مارے بیٹھی اُسکی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کروا گئی۔ "مُجھ سے۔۔۔وہ حیران ہوا تو اُس نے زور سے سر اثبات میں ہلایا۔ "تُم جانتی ہو کہ میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا دو دن بعد رات کو آتا ہوں کیسے پڑھا پاؤنگا۔۔۔۔۔۔" "تو کوئی بات نہیں شاہ،آپ ُمجھے رات کو ہی پڑھا دیا کرنا۔۔۔۔۔"وہ مُسکرا کر بولتی اُسکی گھوریوں کو نظر انداز کر گئی۔ "رات کو بہت اچھے،بلکل بھی نہیں،جو تم سوچ رہی ہو نہ نظر آ رہا مجھے۔۔۔۔۔۔۔"وہ بال بنا کر موبائل اور والٹ جیب میں رکھنے لگا۔ "نہیں مُجھے آپ سے پڑھنا ہے اور وہ بھی رات کو بس فائنل ہو گیا۔۔۔۔۔"وہ ضدی لہجے میں بولی۔ "اوکے فائن،ہر چیز کا ایک معاوضہ ہوتا ہے سو تُم بھی ہر رات مجھے میرا معاوضہ دے کر ہی سویا کرو گی مائے سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔"وہ شرارتی مُسکان لبوں پر سجائے معنی خیزی سے بولتا اسے سٹپٹا گیا وہ اُسکی بات کا مطلب سمجھتی چہرے پر کشن رکھ گئی تو مریام قہقہ لگا گیا۔

"_________________________________"

   0
0 Comments